کتاب باب آیت

اعمال 22

 22

  1 ”اے بھائیواور بزرگو! مُجھے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے“  2 جب لوگوں نے اُس کو اپنی زبان میں بات کرتے سُنا توبالکل خاموش ہو گئے تب پولُسؔ نے بُولنا شروع کیا۔

  3 ”میں یہودی ہوں اور کِلکیہ کے شہر ترسُسؔ میں پیدا ہُوا وہاںہی پلا بڑھا اورمیں نے گیملی ایلؔ سے تعلیم پائی۔ اُس کی نگرانی مِیں میںنے یہودی شریعت اور روایتوں کو سیکھا۔ سختی سے شریعت کا پابند اور خُدا کے کام کے لیے جُوش سے بھرا ہو اتھا۔ جیسے آج تُم سب ہو۔

  4 اِسی جوش مِیں میں نے اُن مردوں اور عورتوں کو باندھ باندھ کر قید میں ڈالتا رہا جو مسیِح کی تعلیم کے پیروکار تھے بلکہ بعض کو مروا بھی ڈالا۔  5 سردار کاہن اور کونسل کے بزُرگ اِس بات کے گواہ ہیںکیونکہ اُن سے میں دمشق کے لیے خط لے کر گیاتاکہ وہاں سے بھی اِس تعلیم کے پیروکاروں کو باندھ کریروشلیِم میں سزا دلانے کے لیے لاؤں۔

 پولُس ؔاپنی تبدیلی کی گواہی:

  6 سفر کرتا ہواجب میں دمشق کے قریب پہنچا تو دوپہر کا وقت تھاآسمان سے ایک بڑی روشنی میرے اردگرد چمکی۔  7 میں زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سُنائی دی:  ”ساؤل ؔ، ساؤلؔ! تو مُجھے کیوں دُکھ دیتا ہے؟“   8 میں نے آواز دینے والے سے پوچھا خُداوند تو کون ہے جس پر مُجھے یہ جواب ملا:  ”میں یسُوعؔؔ ناصری ہوں جسے تو ستاتا ہے۔“   9 میرے ساتھ جو لوگ تھے اُنہوں نے روشنی تو دیکھی مگر بولنے والے کی آواز نہ سمجھ سکے۔  10 میں نے پوچھا: ”خُداوند میں کیا کروں؟“ اُس نے جواب میں کہا:  ”اُٹھ اور دمشق میں جا۔ وہاں تُجھے سب کچھ جو تُجھے کرنے کے لیے چُنا گیا ہے بتا دیا جائے گا۔“   11 اُس تیز روشنی کے باعث میں اندھا ہو گیا میرے ساتھی میرا ہاتھ پکڑ کر مُجھے دمشق لے گئے۔  12 حننیاہؔ نام کا ایک شخص دمشق ؔ میں رہتا تھا جو خُدا پرست اور شریعت پر سختی سے عمل کرنے والا تھا۔ اور وہاں کے تمام یہودیوں میں نیک نام تھا۔  13 وہ میرے پاس آ کرکھڑا ہوا اور کہا: ”بھائی پولُسؔؔدوبارہ دیکھنے کی قوت پا“ اور اُسی لمحے میری آنکھوں کی روشنی واپس آ گئی۔  14 پھراُس نے کہاکہ ہمارے باپ دادا کے خُدا نے تُجھے چُنا ہے کہ اُس کی مرضی کوجانے اور اُس راستباز (یسُوعؔؔ) کو دیکھے اوراُس کے مُنہ کی باتیں سُنے۔  15 کیونکہ تُو اُن سب باتوں کا جسے تُو نے دیکھا اور سُناہے سب لوگوں میں گواہ ہو گا۔  16 بس اب تو کس بات کے انتظار میں ہے اُٹھ اوربپتسمہ لے اور یسُوعؔ نام میں اپنے گناہ دھو ڈال۔

 پولُسؔؔ کی بُلاہٹ:

  17 واپس یروشلیِم آ کر ایک دن میں ہیکل میں دُعا کر رہا تھا کہ میں وجدمیں آ گیا۔  18 اُسی حالت میِں مَیں نے یسُوعؔؔ کو دیکھا۔ اُس نے مُجھ سے کہا:  ”جلدی کر! یروشلیِم سے چلاجا، کیونکہ یہاں کے لوگ میرے بارے میں تیری گواہی کو قبول نہیں کریں گے۔“

  19 میں نے جواب میں کہا: ”خُداوند یہ اس بات کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کس طرح ایک عبادت خانے سے دُوسرے عبادت خانے میں تیرے پیروکاروں کوپکڑ کر مارتا اور قید میں ڈالتا تھا۔“  20 ”اور جب تیرے گواہ ستفنُس ؔ کوقتل کیا جا رہا تھا تو میری مرضی بھی اِس میں شامل تھی اور میں اُن لوگوں کے کپڑوں کی نگرانی پر کھڑا تھا جو اُسے سنگسار کر رہے تھے۔“  21 مگر یسُوعؔ نے کہا:  ”جا میں تُجھے دُور دراز غیر قوموں میں بھیجوں گا۔“

  22 ہجوم پولُسؔ ؔکی بات اَب تک سُنتا رہا مگر جب اُس نے یہ بات کہی تو چلّا چلّا کر کہنے لگے: ”اِس شخص کوزمین پر سے ختم کرو یہ زندہ رہنے کے قابل نہیں۔“  23 غُصّے سے چلّاتے ہوئے وہ اپنے کپڑے اور خاک کو ہوا میں اُڑا رہے تھے۔  24 کمانڈر نے پولُسؔ کو قلعے میں لے جاکر پیٹنے کا حُکم دیا تاکہ اُس کا بیان لے کر معلوم کر سکے کہ ہجوم کیوں اُس کے خلاف اِس قدرغُصّہ میں ہے۔

  25 جیسے ہی سپاہیوں نے پولُسؔ کو کوڑے لگانے کے لیے لٹایا اُس نے ایک افسر سے پُوچھا کہ کیا یہ مناسب ہے کہ کسی رومی کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر کوڑے لگائے جائیں۔  26 یہ سُن کر فوجی افسر نے کمانڈر کو اِس بات کی خبر دی اور کہااِب ہم کیا کریں یہ شخص تو رُومی شہری ہے۔  27 کمانڈر پولُسؔ ؔکے پاس گیا اور پوچھا کیا تو رُومی شہری ہے؟ پولُسؔؔ نے جواب دیا: ”ہاں میں ہوں۔“  28 کمانڈر نے کہا: ”میںنے تو بڑے پیسے دے کر رُومی شہریت حاصل کی ہی“ پولُسؔؔ نے جواب دیا: ”میں تو پیدائشی رُومی شہری ہوں۔“

  29 یہ سُن کر سپاہی جو اُسے پیٹنے لگے تھے خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے اور خُود کمانڈر بھی ڈر گیاجس نے اُس کو زنجیروں سے باندھا تھا۔

  30 اگلی صبح اُس نے پولُسؔؔ کو کھول دیااور یہ پتا چلانے کے لیے کہ یہودی اُس پر کیا الزام لگاتے ہیں اُس نے سرد ارکاہن اوریہودی کونسل کو بلوا کرپولُسؔؔ کو اُن کے سامنے کھڑا کیا۔