پولُسؔؔ کا یروشلیمؔ جانا:
1 افسسؔ کے بزُرگوںکو بمشکل الوداع کہہ کرہم سمندر کے راستہ سیدھاکوسؔ آئے اور اگلے دن رودسؔ اور پھر پترہ ؔگئے۔ 2 وہاں سے ایک جہاز پر سوار ہو کر ہم سیدھے فنیکےؔ روانہ ہوئے۔ 3 جب قبرص ؔ کا جزیرہ نظر آیا تو اِس کے جنوب سے گُزر کر شام ؔ کے شہر صُورؔکی بندرگاہ پر رُکے جہاں جہاز نے سامان اُتارنا تھا۔ 4 جہاز سے اُتر کر وہاں موجود شاگردوں کو تلاش کر کے اُن کے ساتھ سات دن گُزارے۔ اُنہوں نے پاک رُوح کے وسیلے پولُسؔؔ کے لیے نبُوت کی وہ یروشلیِمؔ نہ جائے۔ 5 رُخصت ہونے کے وقت ایمانداروں کی ساری جماعت اپنی بیوی بچوں کے سمیت ہمارے ساتھ ساحل تک آئے اور گھٹنے ٹیک کر دُعا کی۔ 6 ایک دُوسرے کوخُدا حافظ کہہ کر ہم بحری جہاز پر سوار ہوگئے اور وہ سب اپنے اپنے گھرچلے گئے۔
یعقوبؔ سے ملاقات:
7 صُورؔ سے سفر کرتے ہوئے ہم پتُلمیس ؔگئے۔ وہاں ہم ایمانداربھائیوں اوربہنوں سے مل کر ایک دن اُن کے ساتھ رہے۔ 8 اگلے دن ہم قیصریہؔ پہنچے اور مبشرفلِپس ؔکے گھر ٹھہرے۔ یہ اُن سات مددگارو ںمیں سے ایک تھاجنہیں کھانا بانٹنے کے لیے چُنا گیا تھا۔ 9 اُس کی چار کنواری بیٹیاں تھیں جو نبُوت کرتی تھیں۔ 10 جب ہمیں وہاں ٹھہرے کافی دن ہو گئے تو ایک آدمی جس کا نام اگُبسؔتھایہودیہ سے آیا وہ نبی تھا۔ 11 وہ ہمارے پاس آیا۔ اُس نے پولُسؔؔ کا رُومال لے کراپنے ہاتھ پاؤں باندھ کر کہا: ”پاک رُوح فرماتا ہے کہ یہ رُومال جس کا ہے اُسے یروشلیِمؔ میں یہودی اِسی طرح باندھ کر غیرقوم والوں کے حوالے کریں گے“ ۔ 12 یہ سُن کر ہم نے اور وہاں موجود اور لوگوں نے بھی پولُسؔ کی منت کی کہ یروشلیِم ؔ نہ جائے۔ 13 تب پولُسؔ ؔنے اُن سے کہا: ”تُم کیوں رو رو کر کیوں میرا دل دُکھی کرتے ہو۔ میں یروشلیِمؔ میں خُداوند یسُوعؔ کی خاطر نہ صرف قید ہونے بلکہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔“ 14 جب ہم اُسے منا نہ سکے تو خُداوند کی مرضی جانتے ہوئے چھوڑ دیا۔ 15 اِس کے بعد ہم نے اپنا سفر یروشلیِم ؔ تک جاری رکھا۔ 16 قیصریہؔ سے چندبھائی بھی ہمارے ساتھ گئے۔ وہ ہمیںمناسون ؔکے گھرلے گئے جہاں ہمیں ٹھہرنا تھاوہ قبرص ؔسے تھا اوراُن شاگردوں میں سے تھا جو شروع میں ایمان لائے تھے۔
17 یروشلیِم ؔ پہنچنے پروہاںکے بھائیوں نے بڑی گرم جُوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ 18 اگلے دن ہم پولُسؔ ؔ کے ساتھ یعقوُبؔ کو ملنے گئے وہاں یروشلیِمؔ کی کلیسیاکے بزُرگ بھی مُوجود تھے۔ 19 اُنہیں سلام کر کے پولُسؔؔنے اپنی خدمت کے دوران اُن سارے کاموں کو جوغیرقوموںمیںہوئے تفصیل سے بتایا۔ 20 یہ سُن کرسب نے خُداوند کی تعریف کی اور پھر پولُسؔؔ سے کہنے لگےؔ، اے بھائی! بُہت سے یہودی بھی ایمان لے آئے ہیںاور مُوسوی شریعت کی بڑی سنجیدگی سے پیروی کرتے ہیں۔ 21 اِنہیں تیرے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ تُم اُن یہودیوں کو جو غیرقوموں میں رہتے ہیں شریعت کی پیروی کرنے سے منع کرتاہواور یہ بھی کہ تُو اُنہیں بتاتا ہے کہ اپنے بچوں کا ختنہ کرانے اور روایتوں پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ 22 وہ یقینا جان جائیں گے کہ تُو یروشلیِم میں آیا ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ 23 اَب ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ چار آدمی ہیں جنہوں نے مَنّت مانی ہے۔ 24 اِن آدمیوں کے ساتھ جا کر اُن کی طہارت کی رسومات میں شامل ہو اور خُود اُن کے اخراجات اُٹھا تاکہ وہ اپنے سر منڈواسکیں یوں سب جان جائیں گے کہ تیرے خلاف پھیلائی گئی باتیں جھُوٹی ہیں بلکہ تُو خُود بھی راست دلی سے شریعت پر عمل کرتا ہے۔ 25 جہاں تک غیریہودی ایمانداروں کی بات ہے تواُن کو ہم ایک خط کے ذریعے ہم پہلے ہی بتا چُکے ہیں کہ بتوں کی قربانی سے پرہیز کریں، لہوسے اور گلا گُھونٹے جانوروں کے گو شت سے پرہیز کریں اورحرامکاری سے بچیں۔ 26 اگلے دن پولُسؔ ؔنے اُن چاروں کو لے کر رسم کے مطابق اپنے آپ کو پاک کیااورہیکل میں داخل ہو کر ا علان کیا کہ طہارت کے دن پُورے ہونے کے بعد اِن سب کے لیے قربانی دی جائے گی۔
پولُسؔؔ کی گرفتاری:~
27 جب طہارت کے سات دن پُورے ہونے والے تھے کہ آسیہ سے کچھ یہودیوں نے پولُسؔ کو ہیکل میں دیکھاتواُس کے خلاف لوگوں کو بھڑکا کر اُسے پکڑ لیا۔ 28 اور چلّاچلّا کر کہنے لگے: ”اے اسرائیلیو! یہی وہ شخص ہے جو ہر جگہ اور ہر ایک کو ہمارے خلاف اور یہودی شریعت اور ہیکل کے خلاف تعلیم دیتا ہے بلکہ یونانیوں کو بھی ہیکل میںلا کر اِس پاک مقام کو ناپاک کیاہے۔ 29 دراصل اُنہوں نے ترُوفیمسؔ کو جو افسسؔ سے تھاپہلے شہر میں دیکھا تھا۔ وہ سمجھے کہ پولُسؔؔ اُسے ہیکل لے گیا ہے۔ 30 سارے شہر میں ہلچل مچ گئی، لوگ بھاگتے ہوئے آئے ورپولُسؔ کو گھسیٹتے ہوئے ہیکل سے باہر لے آئے اور فوراً ہیکل کے دروازے بند کر دیے۔ 31 وہ اُسے قتل کرنے کی کوشش میں تھے کہ رومی پلٹن کے کمانڈر کو خبر ملی کہ پُورے شہر میں ہنگامہ ہو رہا ہے۔ 32 اُس نے فوراً اپنے افسروں اور کچھ سپاہیوں کو بُلایا اور ہجوم کی طرف دوڑا۔ جب ہجوم نے کمانڈراور فوجیوں کو دیکھا تو پولُسؔؔ کو پیٹنا بند کر دیا۔ 33 کمانڈر نے پولُسؔؔ کو گرفتار کرکے زنجیروں سے باندھا اور لوگوںسے پوچھا کہ وہ کون ہے اور اُس نے کیا کِیا ہے۔ 34 ہجوم میں ہر کوئی اپنی اپنی بات کرنے لگا۔ شور کی وجہ سے جب کمانڈر کو کچھ سمجھ نہ آیا تو حُکم دے کرپولُسؔؔ کو قلعہ میںبھیج دیا۔ 35 ہجوم کے بے حد ہنگامہ کی وجہ سے فوجیوں کو پولُسؔ ؔکوسیڑھیوں پر سے لے جانے کے لیے اُٹھانا پڑا۔ 36 ہجوم اُن کا پیچھا کرتے ہوئے چلّا رہے تھے۔: ”اِسے ختم کرو، اِسے ختم کرو۔“
پولُسؔؔ کا صفائی پیش کرنا:
37 جب سپاہی پولُسؔؔ کو قلعہ میں لے جا رہے تھے تو پولُسؔ ؔنے کمانڈر سے کہا: ”میںتُجھ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں“ کمانڈر نے حیرانگی سے پوچھا: ”کیا تو یونانی جانتا ہے؟“ 38 ”کیا تو وہی مصری تو نہیں جس نے کچھ عرصہ پہلے بغاوت کی اور چار ہزار باغیوں کو بیابان میں لے گیاتھا؟‘ ‘ 39 پولُسؔ ؔ نے جواب دیا: ”نہیں! میں ایک یہودی ہوں اور کِلکیہؔ کے مشہور شہر ترسُس کا شہری۔ میری درخواست ہے کہ مُجھے لوگوں سے بات کرنے کی اجازت دی جائے۔“ 40 کمانڈر نے پولُسؔ کی درخواست قبوُل کر کے اُسے بُولنے کی اجازت دی جس پر اُس نے سیڑھیوںپر کھڑے ہو کرہجوم کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ خاموشی ہو جانے پر وہ عبرانی میں اُن سے مخاطب ہوا۔